ٹیکس ریٹرن…. ذمہ داری یا مصیبت
تحریر : رضوان خان
ساری دنیا میں اس بات پر ہمارا مذاق اڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں ٪1 فائلر ہیں – حکومت ہر جگہ نان فائلرز کا رونا روتی ہے- مگر آخر ٪99 لوگ اس طرف آتے کیوں نہیں؟
موجودہ حکومت اور چئیرمین ایف بی آر کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں –
ہماری ٪85 آبادی عام لوگ ہیں جو ساری زندگی محنت مزدوری کر کے، بچے پالنے اور گھر بار سیدھا کرنے کے بعد کوئی ایک آدھا چھوٹا موٹا بچوں کے لیے پلاٹ ہی لے پاتے ہیں اور انکے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا – وہ سارا سال ایک ایک چیز پر ٹیکس دیتے ہیں –
انکی پورے سال کی ریٹرن ایک صفحے سے زیادہ کی نہیں ہوتی –
مگر انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ریٹرن کہتے کسے ہیں –
خود حکومت کے اپنے سرکاری ملازمین کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ پہلے اسی حکومت نے سرکاری ملازمین کو فائلر بنانے کی مہم کا آغاز کیا تھا – اس میں کافی ملازمین فائلر بنے- جو نہیں بن سکے اسکی مندرجہ ذیل وجہ ہمارے سامنے آئی –
انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پراسیس بے حد پیچیدہ ہے جو ایک ماہر کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے – ایف بی آر ملازمین اور وکلاء نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور وہ سہولت جو ایف بی آر آفس سے مفت ملنی چاہیے اسکے ہر ملازم سے تین تین چار چار ہزار روپے وصول کئے –
بھکر سے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جو سب سے سستا وکیل ملا اس نے بھی سب ملازمین سے تین تین ہزار روپے لئے اور سب کے آئی ڈی پاسورڈ بھی اپنے پاس ہی رکھے تا کہ اگلے سال منہ مانگی فیس وصول کر کے ریٹرن فائل کرے-
ایک اور ملازم دوست نےکمالیہ سے بتایا کہ ہم ایف بی آر آفس ریٹرن کے لیے گئے تو وہاں ملازمین نے کہا کہ آپ ہمیں تین ہزار روپے دیں ہم کر دیتے ہیں –
انکار پر کہا کہ وکیل کے ذریعے آئیں- ایسے ریٹرن نہیں ہوتی – جس نے پیسے دیئے اسکا کام ہو گیا –
سال 19-2018 (جسکی اب جون کے بعد ریٹرن فائل کرنی ہے) چار لاکھ سے آٹھ لاکھ سالانہ آمدنی پر 1000 روپے ٹیکس ہے اور آٹھ سے بارہ لاکھ روپے آمدنی پر 2000 روپے –
آپ ذرا المیہ دیکھیں کہ ایک ملازم جس کا سالانہ ٹیکس ایک یا دو ہزار روپے بنےگا اس نے سارا سال ٹیکس بھی کٹوا دیا اور اب کٹوانے کے بعد اس کی ریٹرن کے لیے وکیل کو دوبارہ تین سے چار ہزار ادا کرے گا –
کیا یہ ظلم نہیں؟
کہ وہ ٹیکس کٹوا کر پھر 4 گنا رقم اسے ثابت کرنے پر لگا دے جی کہ میں نے جتنا میرا ٹیکس بنتا تھا وہ کٹوا دیا ہے –
اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا وہ ملازم یہ فالتو کا تین چار ہزار روپیہ اپنی جیب سے ادا کرے گا؟ ہرگز نہیں – وہ ان پیسوں کی وصولی کے لیے لازماً کرپشن کرے گا –
کاروباری لوگ اور دیگر باقی ماندہ لوگ بھی وکیلوں کے چکروں کی وجہ سے اسی لئے آرام سے بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہو گا تو دیکھا جائے گا –
مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں – مندرجہ بالا ٪85 عام آدمیوں کی ٹیکس ریٹرن کے لیے ایک ایپلیکیشن بنا دی جائے جس میں سادہ سے فارم پر سب معلومات درج کی جا سکیں – اٹیچمنٹ میں کوئی تحریری ثبوت دیا جا سکے – سمپل سبمٹ پر کلک کر کے ریٹرن جمع ہو جائے – ملازمین پر کامیابی سے چلنے کے بعد ایسی ہی ایپلیکیشن کاروباری لوگوں کے لیے بھی بنائی جائے –
اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں تو ایف بی آر دفاتر میں وافر مقدار میں ٹرینڈ لوگوں کو بٹھایا جائے – آن لائن اور مینول ٹوکن سسٹم سے ہر شخص جو ریٹرن جمع کروانا چاہتا ہے اسے باری دی جائے اور اس چیز کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے کہ وہاں صارف ایک روپیہ خرچ کیے بغیر اپنی ریٹرن جمع کروا سکے –
کوئی بلا وجہ تنگ کرے یا پیسوں کی ڈیمانڈ کرے تو فوراً ہیلپ لائن پر کمپلین کی جا سکے اور اس ملازم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے –
اس طرح ایف بی آر ملازمین اور وکیلوں کے مافیا سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی – اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ بھی بند ہو جائے گا –
ملک کے کروڑوں ذمہ دار شہری ٹیکس ریٹرن جمع کروانا چاہتے ہیں مگر پیچیدہ سسٹم اور وکیلوں کے چکروں اور بلیک میلنگ کی وجہ سے نہیں کرواتے – ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے تو خدارا اس سسٹم کو آسان بنائیں –
ٹیکس ریٹرن فائل کرنا اتنا آسان بنا دیں کہ ہر شہری آسانی سے کروا سکے یا خود کر سکے –
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ترقی و خوشحالی عطا فرمائے آمین –
آگے شئر کریں تا کہ حکومتی ایوانوں تک یہ آواز پہنچ جائے –